پولیس اور عدلیہ پاکستان کے تین کرپٹ ترین اداروں میں شامل

ejang
Jang News

10 دسمبر ، 2023

اسلام آباد ( انصار عباسی )ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ہفتے کو جاری کردہ اپنی قومی کرپشن کا تناظری سروے2023 سے پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ پاکستان کے تین کرپٹ ترین ادروں میں سے ایک ہے۔رپورٹ کے مطابق پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے ، اس کے بعد ٹھیکے دینے اور کٹریکٹ کرنے کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم ، ایکسائز اورانکم ٹیکس بالترتیب چھٹے ، ساتویں اور آٹھویں کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ پبلک سروس ڈیلیوری کی ٹرمزکے مطابق عدلیہ میں رشوت کا اوسط خرچ سب سے زیادہ 25 ہزار846 روپے ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اوسط رشوت سب سے زیادہ تھی اور یہ ایک لاکھ 62 ہزارروپے تک تھی۔پنجاب میں اوسط شہری نے زیادہ سے زیادہ رشوت 21 ہزار186 روپے ادا کی اور یہ بھی پولیس کو دی جبکہ بلوچستان میں صحت کی سہولتوں کےلیے زیادہ سے زیادہ اوسط رشوت دی گئی جو کہ 1 لاکھ 60 ہزار روپے تھی۔ این سی پی ایس 2023 کے مطابق 68 فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ جیسے ادارے سیاسی شکار کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 60 فیصد پاکستانی قومی سطح پر محسوس کرتے ہیں کہ نیب ، ایف آئی اے ، اے سی ای اور محتسب جیسے احتسابی ادارے ختم کردینے چاہئیں کیونکہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی سطح پر 75 فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس بہت طاقت اور اثر ورسوخ ہے جس سے کرپشن ہوتی ہے۔ 36 فیصد شہری اکثریت کا خیال ہے کہ انسداد بدعنوانی کے اداروں کا کردار ’ غیر موثر ‘ رہا ہے۔ قومی سطح پر کرپشن کے بڑے مقدمات میں 40 فیصد میرٹ کی قلت ہے۔ صوبائی سطح پر سندھ میں 42 فیصد ، خیبر پختونخوا میں 43 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ میرٹ پر کام نہیں ہوتے۔ پنجاب میں 47 فیصد سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کےلیے استعمال کرتی ہے اور یہی پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔ کرپشن کو کچلنے کے اقدامات کے طورپر 55 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہےکہ قومی سطح پر حکومت کو فوری طو پر سرکاری افسران کے اثاثوں کا اظہار اپنی ویب سائٹس پر انکشاف یقینی بنانا چاہیے اور 45 فیصد کا خیال ہے کہ احتساب عدالتوں کو کرپشن کے مقدمات 30 دن اندر بھگتانے چاہئیں۔ قومی سطح پر 47 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے کی بڑی وجہ ہے۔ 62 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ کرپشن اور غیر اخلاقی افعال ماحولیاتی تباہی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بڑھانے کی وجہ ہیں 67 فیصد محسوس کرتے ہیں کہ صوبائی اور مقامی حکومتیں ماحولیاتی پالیسیاں بناتے ہوئے ان کے خیالات کو اہمیت نہیں دیتیں۔ قومی سطح پر 76 فیصد پاکستانیوں نے کبھی رائٹ ٹو انفارمشین کے تحت کوئی درخواست نہیں دی۔ ٹی آئی پی کے مطابق گزشتہ 23 برس میں 8 مرتبہ کرپشن پرسیپشن سروے کیا گیا ہے جو کہ 2002، 2006،2009،2010،20112021،2022 اور 2023 میں ہوا تھا۔ این سی پی ایس 2023 کا پرسیپشن لیول پاکستانیوں کے تاثر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس تنظٰم نے یہ سروے اپنی پارٹنر آرگنائزیشنز کے تعاون سے چوروں صوبوں میں 13 اکتوبر 2023 سے 31 اکتوبر 2023 تک 1600 شہریوں سےکیا تھا اور ان میں سے ہر صوبے مین سے 400 افراد سے ردعمل حاصل کیا گیا تھا۔