ماحولیاتی تبدیلیاں، پاکستان کو سالانہ 4؍ ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے، ٹرانس پیرنسی

22 مارچ ، 2024

اسلام آباد (انصار عباسی) ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی پی) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیات تغیرات کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات سے پاکستان کو سالانہ چار ارب ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ ٹی آئی پی نے جمعرات کو اپنی رپورٹ جاری کی جس کا عنوان ’’فائنانسنگ کلائمیٹ ایکشن: پاکستان کے موسمیاتی نظم و نسق کے فریم ورک میں تاثیر اور شفافیت میں اضافہ‘‘ ہے۔ ٹی آئی پی کی پریس ریلیز کے مطابق، یہ رپورٹ پاکستان میں موسمیاتی نظم و نسق کے موجودہ فریم ورکس کا جائزہ ہے جن کا مقصد خصوصاً شفافیت، جامعیت، اور موسمیاتی تبدیلی کیخلاف ملک کے ردعمل کی تاثیر کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی و صوبائی سطح پر بہتری اور عملدرآمد میں پائے جانے والے خلاء کی نشاندہی کرنا ہے۔ ٹی آئی پی کے مطابق، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونیوالے واقعات کی وجہ سے اوسطاً 4ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے، پاکستان نے مناسب فنڈز کے حصول پر اپنے این ڈی سی (قومی طور پر طے شدہ شراکت) کے حوالے سے عزم ظاہر کیا ہے۔ تاہم رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ کلائمٹ فنانس کا حصول بہت کم ہے، لہٰذا ان وعدوں پر بین الاقوامی کلائمٹ فنانس کے حصول تک عمل ممکن نہیں۔ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس سر فہرست ممالک میں ہوتا ہے لیکن پاکستان کا شمار کلائمٹ فنانس حاصل کرنے والے دس سرفہرست ممالک میں نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جس وقت واضح موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور موافقت کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، پاکستان میں مناسب اور بہتر مربوط موسمیاتی مالیاتی نظام کے قیام میں محدود پیش رفت ہوئی ہے جو مالی وسائل تک موثر رسائی کیلئے سازگار ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے ایکٹ 2017کے تحت قائم کردہ ماحولیاتی تبدیلی کے اداروں کو فعال اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں افقی اور عمودی دونوں طرح سے، گورننس میں موسمیاتی نظام کو مربوط کرنے کے بنیادی محرک ہونے کی ضرورت ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ملک میں موسمیاتی نظم و نسق کو مضبوط بنانے کیلئے دس تجاویز پیش کی ہیں: ۱) موسمیاتی تبدیلی کے ایکٹ کے تحت قائم کردہ ماحولیاتی تبدیلی کے اداروں کو فعال اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔۲) ’’پورا معاشرہ‘‘ کے نقطہ نظر پر مشتمل ایک سوچ پر عمل کرنا ہوگا جو موسمیاتی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں عوام اور ماہرین کی شرکت کی دعوت دے۔ ۳) منصوبہ بندی اور بجٹ کی سطح سمیت پروجیکٹ کے ڈیزائن میں شفافیت اور آب و ہوا کے نقطہ نظر کو شامل رکھا جائے۔ ۴) اہم آڈیٹنگ اور رپورٹنگ اداروں بشمول بدعنوانی پر نظر رکھنے والے اداروں کی استعداد میں اضافہ، ۵) قومی اور صوبائی موسمیاتی پالیسیوں کے درمیان پالیسی کا فرق اور ادارہ جاتی صلاحیت کی کمی، ۶) موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے پیمانے کے تناسب سے موسمیاتی بجٹ میں مختص رقم کو بڑھانا، ۷) موسمیاتی منصوبوں کی شفافیت کو بڑھانے کیلئے پی پی آر اے کے قوانین پر عمل کو یقینی بنانا،۸) موسمیاتی مالیات پر اوپن ڈیٹا بیس کا قیام، ۹) بہترین عالمی طرز عمل کے تحت موسمیاتی گورننس کو بہتر بنانا،۱۰) شکایات وصول کرنے اور انسداد بدعنوانی کے اقدامات کو نافذ کرنے کیلئے مناسب طریقہ کار اور صلاحیت کو یقینی بنانا بیحد اہم ہے۔